آسٹریائی چانسلر کا مہاجرین کی پسندیدہ منزل لیسبوس کا دورہ
5 اکتوبر 2015لیسبوس نامی یہ یونانی جزیرہ ترکی کی سرحد سے تقریباﹰ ساڑھے چار کلو میٹر دور واقع ہے۔ ترک پناہ گزین کیمپوں میں مقیم لاکھوں شامی، افغانی اور دیگر شورش زدہ ملکوں سے آئے ہوئے مہاجرین ہر روز ہزاروں کی تعداد میں بحیرہ روم کا خطرناک سمندری راستہ طے کرتے ہوئے اس جزیرے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی کوشش میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ فے مان سے قبل کسی اور یورپی یونین کے سربراہ مملکت نے اس جزیرے کا دورہ نہیں کیا۔
جرمنی اور آسٹریا کی کوشش ہے کہ وہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے یورپی یونین کے فنڈ کے ذریعے یونان کو مزید مالی معاونت فراہم کریں۔ رواں برس یونان میں چار لاکھ سے زائد مہاجرین داخل ہوئے، جن میں سے زیادہ تر بعد ازاں آسٹریا کے راستے جرمنی پہنچ چکے ہیں۔
یونانی وزیراعظم الیکسِس سپراس کے دفتر سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق دونوں رہنما جزیرے میں واقع ابتدائی رجسٹریشن کے مرکز کا دورہ کریں گے۔ اس کے علاوہ مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو منظم کرنے کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان مزید تعاون پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ اس سے قبل دونوں رہنما اسی موضوع پر ہفتے کے روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے بھی ٹیلی فونک کانفرنس کے ذریعے تبادلہ خیال کر چکے ہیں۔
گزشتہ طویل عرصے سے یونان معاشی بحران کا شکار ہے۔ ترکی کی سرحد کے قریب واقع ان جزیروں میں مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد میں آمد سے نبرد آزما ہونے کے لیے ملک کے پاس مطلوبہ وسائل کی کمی بھی ہے۔ رواں برس موسم گرما میں لیسبوس جزیرے میں اس وقت صورت حال انتہائی مخدوش ہو گئی تھی، جب جزیرے پر آنے والے مہاجرین کے لیے رہائش، خوراک اور پانی کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔ یونانی حکومت نے اس صورت حال کو ’اندوہ ناک‘ قرار دیا تھا۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے آسٹریائی چانسلر فے مان نے قرض دہندگان سے مذاکرات اور مزید مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے یونان کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ جب کہ آسٹریا میں ان کی حکومتی حلیف پارٹی نے اس حوالے سے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔ دونوں جماعتیں آئندہ اتوار کے روز ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گی۔